اس واقعے کے 2 ہفتوں کے اندر ہی 8ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور بعد میں ہزاروں افراد بیماریوں میں مبتلاہوئے
بھوپال:(نیانظریہ بیورو) بھوپال گیس سانحہ دنیا کا سب سے خوفناک اور تکلیف دہ صنعتی سانحہ ہے۔ سانحہ کے متاثرین کے لئے ، یہ ایک ایسا زخم ہے جو 35 سال بعد بھی تازہ ہے۔اس حادثہ کو تین دہائیوں سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی ، نہ ہی مرکزی حکومت نے اور نہ ہی مدھیہ پردیش حکومت نے یونین کاربائڈ میں دفن زہریلے کچرے کومکمل طورپر ختم کرنے کے لئے کوئی پالیسی تشکیل دی ہے ، اس سانحہ سے قبل بھی سینئر صحافی نے اپنا مضمون کے ذریعہ حکومت کو متنبہ کیے جانے کے باوجود ، یونین کاربائڈ کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا اور گیس کے اخراج سے ہزاروں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ذرائع کے مطابق گیس سانحہ سے ڈھائی سال قبل ، صحافی نے یونین کاربائڈ فیکٹری کے بارے میں مضامین لکھنا شروع کیا۔ میڈیاکے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راج کمار کیسوانی نے بتایا کہ سانحہ سے چند سال قبل اس کا ایک دوست جو اس فیکٹری میں کام کرتا تھا زہریلی گیس لیکیج کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد ، کیسوانی نے مسلسل مضامین لکھے۔ ان مضامین کے ذریعے حکومت کو متنبہ کیا کہ کس طرح بھوپال شہر موت کے منہ آگیا ، لیکن نہ تو یونین کاربائڈ انتظامیہ اور نہ ہی اس وقت کی حکومت نے اس پر توجہ دی۔ اس تباہ کن واقعے سے ٹھیک 6 ماہ قبل ، صحافی راج کمار کیسوانی نے ایک مضمون لکھا تھا، جس کی سرخی بھی واضح طور پر دی گئی تھی کہ”بھوپال موت کے منہ پر بیٹھا ہے“ لیکن کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ، اور 2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی شب میں ، گیس کا ایک بہت بڑا رساو ¿ ہوا اور موت کا منظر بھوپال شہرکے مختلف جگہ نمودار ہوا۔اہم بات یہ ہے کہ بھوپال میں یونین کاربائڈ کی فیکٹری سے جاری کردہ کم از کم 30 ٹن انتہائی زہریلی گیس میتھل آﺅسائینائٹ نے ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا۔ اس واقعے میں ، چند گھنٹوں کے اندر ہی تقریبا 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے ، حالانکہ اس وقت کی مدھیہ پردیش کی حکومت نے 3,787 گیس کے شکار ہونے کی تصدیق کی تھی۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق ، واقعے کے 2 ہفتوں کے اندر ہی 8000 افراد لقمہ اجل بن گئے اور بعد میں ہزاروں افراد بیماریوں سے مر گئے۔بتایاجاتاہے کہ بھوپال گیس سانحہ سے قبل ہی ، سینئر صحافی راجکمار کیسوانی نے اپنے مضمون کے ذریعے حکومت اور سماجی اداوروں کو متنبہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ، یونین کاربائڈ کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور آخر کار ہزاروں افراد گیس لیکیج کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔آج اس سانحہ کو35سال ہوگئے،لیکن اب تک حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوئے،اورنہ ہی متاثرین کومناسب معاوضہ دیاگیا۔جس کاانتظام متاثرین آج بھی کررہے ہیں۔
گیس سانحہ سے قبل حکومت کو متنبہ کیا گیاتھا ، پھر بھی برتی گئی غفلت : راجکمار کیسوانی